صحیح بخاری
کتاب الایمان
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس
فرمان کی تشریح سے متعلق ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی
بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے
وقول الله تعالى { ليس البر أن تولوا وجوهكم قبل المشرق
والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخر والملائكة والكتاب والنبيين وآتى
المال على حبه ذوي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب
وأقام الصلاة وآتى الزكاة والموفون بعهدهم إذا عاهدوا والصابرين في البأساء والضراء
وحين البأس أولئك الذين صدقوا وأولئك هم المتقون}. وقوله { قد أفلح
المؤمنون} الآية.
اور ایمان کا تعلق قول اور فعل ہر دو سے
ہے اور وہ بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ایمان میں اور زیادتی ہو۔“ (سورۃ الفتح: 4) اور فرمایا کہ ہم نے ان کو ہدایت میں اور
زیادہ بڑھا دیا (سورۃ الکہف: 13) اور فرمایا کہ جو لوگ سیدھی راہ پر ہیں ان کو اللہ
اور ہدایت دیتا ہے (سورۃ مریم: 76) اور فرمایا کہ جو لوگ ہدایت پر ہیں اللہ نے اور
زیادہ ہدایت دی اور ان کو پرہیزگاری عطا فرمائی (سورۃ محمد: 17) اور فرمایا کہ جو
لوگ ایماندار ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہوا (سورۃ المدثر: 31) اور فرمایا کہ اس
سورۃ نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا؟ فی الواقع جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا
ایمان اور زیادہ ہو گیا (سورۃ التوبہ: 124) اور فرمایا کہ منافقوں نے مومنوں سے کہا
کہ تمہاری بربادی کے لیے لوگ بکثرت جمع ہو رہے ہیں، ان کا خوف کرو۔ پس یہ بات سن کر
ایمان والوں کا ایمان اور بڑھ گیا اور ان کے منہ سے یہی نکلا حسبنا اللہ ونعم الوکیل (سورۃ آل عمران: 173) اور فرمایا کہ
ان کا اور کچھ نہیں بڑھا، ہاں ایمان اور اطاعت کا شیوہ ضرور بڑھ گیا۔ (سورۃ
الاحزاب: 22) اور حدیث میں وارد ہوا کہ اللہ کی راہ میں محبت رکھنا اور اللہ ہی کے
لیے کسی سے دشمنی کرنا ایمان میں داخل ہے (رواہ ابوداؤد عن ابی امامہ) اور خلیفہ
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عدی بن عدی کو لکھا تھا کہ ایمان کے اندر کتنے ہی
فرائض اور عقائد ہیں۔
|
وقال إبراهيم { ولكن ليطمئن قلبي}. وقال معاذ اجلس بنا
نؤمن ساعة. وقال ابن مسعود اليقين الإيمان كله. وقال ابن عمر لا يبلغ العبد
حقيقة التقوى حتى يدع ما حاك في الصدر. وقال مجاهد { شرع لكم} أوصيناك يا
محمد وإياه دينا واحدا. وقال ابن عباس { شرعة ومنهاجا} سبيلا وسنة.
اور حدود ہیں اور مستحب و مسنون باتیں
ہیں جو سب ایمان میں داخل ہیں۔ پس جو ان سب کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا کر
لیا اور جو پورے طور پر ان کا لحاظ رکھے نہ ان کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا
نہیں کیا۔ پس اگر میں زندہ رہا تو ان سب کی تفصیلی معلومات تم کو بتلاؤں گا تاکہ تم
ان پر عمل کرو اور اگر میں مر ہی گیا تو مجھ کو تمہاری صحبت میں زندہ رہنے کی خواہش
بھی نہیں۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ لیکن
میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسلی ہو جائے۔“ اور معاذ رضی
اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایک صحابی (اسود بن بلال نامی) سے کہا تھا کہ ہمارے پاس بیٹھو
تاکہ ایک گھڑی ہم ایمان کی باتیں کر لیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما
نے فرمایا تھا کہ یقین پورا ایمان ہے (اور صبر آدھا ایمان ہے۔ رواہ الطبرانی) اور
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ بندہ تقویٰ کی اصل حقیقت یعنی کہنہ کو
نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ جو بات دل میں کھٹکتی ہو اسے بالکل چھوڑ نہ دے۔ اور مجاہد
رحمہ اللہ نے آیت کریمہ شرع لکم من الدین الخ کی تفسیر
میں فرمایا کہ (اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا جو حضرت نوح علیہ السلام
کے لیے ٹھہرایا تھا) اس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد! ہم نے تم کو اور نوح کو ایک ہی
دین کے لیے وصیت کی ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ شرعۃ و منھاجا کے متعلق فرمایا کہ اس سے سبیل سیدھا راستہ اور
سنت (نیک طریقہ) مراد ہے۔ اور سورۃ الفرقان کی آیت میں لفظ دعا
کم کے بارے میں فرمایا کہ ایمانکم اس سے تمہارا
ایمان مراد ہے۔
|
حدیث نمبر: 8
حدثنا عبيد الله بن موسى، قال أخبرنا حنظلة بن أبي
سفيان، عن عكرمة بن خالد، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله
صلى الله عليه وسلم " بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا
رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان
".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انھوں نے عکرمہ بن
خالد سے روایت کی انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام
کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود
نہیں اور بیشک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے
رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے
رکھنا۔
|
No comments:
Post a Comment